فرقت کا فسوں پھیل گیا شام سے پہلے
انجام نظر آتا ہے انجام سے پہلے
ہم جور و ستم سہہ کے بھی شکوہ نہیں کرتے
اور مورد الزام ہیں الزام سے پہلے
اس واسطے سینے سے لگایا ہے ترا غم
ملتی نہیں راحت کبھی آلام سے پہلے
اے دوست گوارا ہے مجھے عشق میں سب کچھ
کچھ اور بھی کہہ لیجئے بدنام سے پہلے
تسلیم ہے رسوائی سبب اس کا ہوا کون
آنکھوں میں نمی آئی ترے نام سے پہلے
کھو بیٹھا ہوں سب ہوش و خرد ایک نظر میں
ایسا ہی خمار آیا مجھے جام سے پہلے
دیدار کے طالب تھے نظرؔ ہو گئے محروم
دیوار تھی اشکوں کی در و بام سے پہلے
غزل
فرقت کا فسوں پھیل گیا شام سے پہلے
نظر برنی