فغان و آہ ہے ہر دم پکار رکھتا ہے
غضب میں جان دل بے قرار رکھتا ہے
گل چمن نہ در شاہوار رکھتا ہے
بھرا بھرا جو بدن میرا یار رکھتا ہے
لطیف روح کی مانند جسم ہے کس کا
پیادہ کون وقار سوار رکھتا ہے
جدا جدا ہے حسینان دہر کا انداز
ہر ایک طرح کی ہر گل بہار رکھتا ہے
فریب حسن سے اللہ آدمی کو بچا
چلے یہ پیچ تو رستم کو مار رکھتا ہے
کمال عشق کو پاتا ہوں خاکساری میں
طرف نشیب کے دریا گزار رکھتا ہے
بہار آئی ہے بنت العنب پہ جوبن ہے
گرہ میں دام کوئی بادہ خوار رکھتا ہے
سنا ہے جب سے کہ ہیں دفن اس میں عاشق زار
قدم زمیں پہ نہیں وہ نگار رکھتا ہے
ہر ایک شیشۂ ساعت فلک کو کہتا ہے
کہ منتہیؔ سے سراسر غبار رکھتا ہے

غزل
فغان و آہ ہے ہر دم پکار رکھتا ہے
مرزا مسیتابیگ منتہی