فتنے جو کئی شکل کرشمات اٹھے ہیں
کچھ دل میں انوکھے سے خیالات اٹھے ہیں
محفل میں وہ جب بہر ملاقات اٹھے ہیں
ہم راز سے کرتے ہوئے کچھ بات اٹھے ہیں
آندھی تو ابھی صحن چمن تک نہیں پہنچی
اک جھونکے سے سوکھے ہوئے کچھ پات اٹھے ہیں
ہر پھر کے وہی سامنے تھا پردۂ اوہام
کہنے ہی کو آنکھوں سے حجابات اٹھے ہیں
من مست ہیں اس طرح رواں نفس کے پیچھے
سر کرنے کو گویا کہ مہمات اٹھے ہیں
اے شیخ نہ یہ کفر نہ فتنہ ہے نہ شر ہے
اک ہم بھی سنانے کو نئی بات اٹھے ہیں
سیرابیٔ جاں دیکھ کہ ہم بزم سے اس کی
آنکھوں میں بسائے ہوئے برسات اٹھے ہیں
غزل
فتنے جو کئی شکل کرشمات اٹھے ہیں
شان الحق حقی