فتنہ خو لے گئی دل چھین کے جھٹ پٹ ہم سے
اور پھر سامنے آنے میں ہے گھونگھٹ ہم سے
آپ کا قصد محبت ہے اگر غیروں سے
قرض لے لیجئے تھوڑی سی محبت ہم سے
سو گئے ہم تو ہم آغوش ہوئے خواب میں وہ
اب تو کرنے لگے کچھ کچھ وہ لگاوٹ ہم سے
ایک بوسہ کی طلب میں ہوئی محنت برباد
وصل کی رات ہوئی یار سے کھٹ پٹ ہم سے
صلح کر لیں ترے خنجر کے گلے مل جائیں
قتل کے وقت نہ رکھئے وہ رکاوٹ ہم سے
ہائے کس ناز سے کہتے ہیں شب وصل میں وہ
ہو چکی بات جو ہونی تھی پرے ہٹ ہم سے
غزل
فتنہ خو لے گئی دل چھین کے جھٹ پٹ ہم سے
عاشق اکبرآبادی