فتنۂ روزگار کی باتیں
ایسی ہیں جیسے یار کی باتیں
ہجر میں وصل یار کی باتیں
ہیں خزاں میں بہار کی باتیں
لالہ و گل کے ذکر سے بہتر
ایک جان بہار کی باتیں
چھیڑ کے ساتھ نوک جھوک بھی ہے
گل سے ہوتی ہیں خار کی باتیں
سب سمجھتے ہیں میں کہوں نہ کہوں
اس دل بے قرار کی باتیں
چھیڑ دیتا ہوں دل لگی کے لئے
وصل میں انتظار کی باتیں
جو نہ تم روٹھتے تو کر لیتے
اور دو چار پیار کی باتیں
ننگ ہیں عزم مستقل کے لئے
دہر نا پائیدار کی باتیں
دل نشیں ہیں بسنت میں کیفیؔ
یہ شراب و خمار کی باتیں

غزل
فتنۂ روزگار کی باتیں
چندر بھان کیفی دہلوی