فشار تیرہ شبی سے سحر نکل آئے
سیاہ ریت پہ کوئی شجر نکل آئے
میں اپنی ذات کی دیوار پر ہوں محو قلم
بھلے ہی صورت محراب و در نکل آئے
شکستہ خواب کے ریزے زمین وحشت سے
برہنگی کی قبا اوڑھ کر نکل آئے
مرے گمان کے دیپک نہ جل سکے شب بھر
پس یقیں جو جلے بیشتر نکل آئے
نگاہ شیشۂ حسرت میں قید ہو جاتے
یہ اور بات کہ ہم وقت پر نکل آئے
میں سنگ یاس پہ تحریر کر رہا تھا کچھ
کہ لفظ چند بڑے معتبر نکل آئے
سیاہ رات کی تصویر پر شکن سے ابھی
عجب نہیں ہے کہ عامرؔ نظر نکل آئے
غزل
فشار تیرہ شبی سے سحر نکل آئے
عامر نظر