فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
گر نہ ملا وہ کچھ دنوں کام یہاں تمام ہے
اب ہیں ہمارے نام پر سیکڑوں گالیاں یہ لطف
کہتے تھے تم میاں میاں وہ ہی تو یہ غلام ہے
خیر نہ ملیے روز روز یوں ہی سہی کبھی کبھی
اس سے بھی انحراف ہے اس میں بھی کچھ کلام ہے
اے دل بے قرار کچھ کر وہ رکے تو رکنے دے
فائدہ اضطراب سے صبر کا یہ مقام ہے
کوئی کہے برا بھلا کوئی عدو ہو یا ہو دوست
اور کسی سے کام کیا آپ سے مجھ کو کام ہے
ہائے ہر اک کی وہ سنے کچھ میں کہوں تو یہ کہے
آپ نہ مجھ سے کچھ کہیں آپ سے کب کلام ہے
آج ہیں ہم تو جاں بہ لب کل کو گر آئے بھی حصول
تم کو کسی سے کیا غرض اپنی خوشی سے کام ہے
یہ بھی غضب کا رشک ہے خط تو ہے نام غیر پر
اور لفافے پر لکھا سہو سے میرا نام ہے
کس کو کیا شہید ناز کس کی ہوئی وفا پسند
کہتے ہیں ان کے در پر آج خلق کا ازدحام ہے
اب ہیں فریب کس لیے ہوگا یقیں کسی کو اب
تم سے وفا کی آرزو یہ بھی خیال خام ہے
توبہ کا یاں کسے خیال مے کو سمجھتے ہیں حلال
جس کے لیے حرام ہے اس کے لیے حرام ہے
دن ہو تو آفتیں یہ کچھ رات ہو تو یہ کچھ ستم
کیسی ہماری صبح ہے کیسی ہماری شام ہے
ہجر کے وہ ستم سہے اب نہ رہی ہوائے وصل
حال یہی ہے نامہ بر یہ ہی مرا پیام ہے
سن کے مری فغاں کا شور پوچھا کسی نے کون ہے
بولے سنا نہ ہوگا کیا، یہ تو وہی نظامؔ ہے
غزل
فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
نظام رامپوری