فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی
بھوک کی آگ نے لہجے میں تمازت بھر دی
کچھ تو ہے زیست جو وقف مے و ساغر کر دی
ورنہ کس کو ہے پسند اپنے لیے بیدردی
عشق آوارہ و بدنام نے عزت رکھ لی
ہم سے بے گھر بھی کیا کرتے ہیں کوچہ گردی
بات تو جب ہے کہ تم کہنے لگو اس کو بسنت
گل و گلزار پہ جو آنے لگی ہے زردی
آپ کے جسم پہ کیا خوب ہے موسم کا لباس
ہائے جو الگ سمجھتے نہیں گرمی سردی

غزل
فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی
کرار نوری