فکر و احساس کے تپتے ہوئے منظر تک آ
میرے لفظوں میں اتر کر مرے اندر تک آ
کہیں ایسا نہ ہو کہ رک جائیں قلم کی سانسیں
اے مری جان غزل اپنے سخن ور تک آ
ورنہ خوابوں کی تپش تجھ کو جلا ڈالے گی
میری جاگی ہوئی نیندوں کے سمندر تک آ
سرد کمرے کی سلگتی ہوئی تنہائی میں
میری سانسوں سے نکل کر مرے بستر تک آ
در و دیوار معطر ہوں تری خوشبو سے
دل میں مت آ مگر اک بار مرے گھر تک آ
اس سے کہنا ہے سلیمؔ اگلی ملاقات میں یہ
خواب بن کر کبھی آنکھوں کے مقدر تک آ

غزل
فکر و احساس کے تپتے ہوئے منظر تک آ
سردار سلیم