فکر کا کاروبار تھا مجھ میں
ایک روشن دیار تھا مجھ میں
داغ جیسا کہیں کہیں ہے اب
تو کبھی بے شمار تھا مجھ میں
میں تو اپنے بدن سے باہر تھا
کون پھر بے قرار تھا مجھ میں
وہ اداسی ضعیف تھی لیکن
ایک آساں شکار تھا مجھ میں
جانے کتنے خیال کام پہ تھے
کس قدر روزگار تھا مجھ میں
اب وہ بادل بھی ہے سمندر بھی
جو محض ریگزار تھا مجھ میں
ہوئی برسات تو یہ بھید کھلا
کتنا گرد و غبار تھا مجھ میں
غزل
فکر کا کاروبار تھا مجھ میں
وکاس شرما راز