فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاک کوئے جاناں کیوں نہ ہو
دہر میں اے خواجہ ٹھہری جب اسیری ناگزیر
دل اسیر حلقۂ گیسوئے پیچاں کیوں نہ ہو
زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام
عقل والو پھر طواف کوئے جاناں کیوں نہ ہو
جب نہیں مستوریوں میں بھی گناہوں سے نجات
دل کھلے بندوں غریق بحر عصیاں کیوں نہ ہو
اک نہ اک ہنگامے پر موقوف ہے جب زندگی
مے کدے میں رند رقصاں و غزلخواں کیوں نہ ہو
جب خوش و ناخوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ
ہم نشیں پھر بیعت جام زر افشاں کیوں نہ ہو
جب بشر کی دسترس سے دور ہے حبل المتیں
دشت وحشت میں پھر اک کافر کا داماں کیوں نہ ہو
ایک ہے جب شور جہل و بانگ حکمت کا مآل
دل ہلاک ذوق گلبانگ پریشاں کیوں نہ ہو
اک نہ اک رفعت کے آگے سجدہ لازم ہے تو پھر
آدمی محو سجود سرو خوباں کیوں نہ ہو
اک نہ اک پھندے ہی میں پھنسنا ہے جب انسان کو
دوش پر دام سیاہ سنبلستاں کیوں نہ ہو
جب فریبوں میں ہی رہنا ہے تو اے اہل خرد
لذت پیمان بار سست پیماں کیوں نہ ہو
یاں جب آویزش ہی ٹھہری ہے تو ذرے چھوڑ کر
آدمی خورشید سے دست و گریباں کیوں نہ ہو
اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے تو جوشؔ
زندگی پر سایۂ زلف پریشاں کیوں نہ ہو
غزل
فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو
جوشؔ ملیح آبادی