EN हिंदी
فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے | شیح شیری
fikr-e-manzil hai na hosh-e-jada-e-manzil mujhe

غزل

فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے

جگر مراد آبادی

;

فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے
جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے

اب زباں بھی دے ادائے شکر کے قابل مجھے
درد بخشا ہے اگر تو نے بجائے دل مجھے

یوں تڑپ کر دل نے تڑپایا سر محفل مجھے
اس کو قاتل کہنے والے کہہ اٹھے قاتل مجھے

اب کدھر جاؤں بتا اے جذبۂ کامل مجھے
ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے

روک سکتی ہو تو بڑھ کر روک لے منزل مجھے
ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے

جان دی کہ حشر تک میں ہوں مری تنہائیاں
ہاں مبارک فرصت نظارۂ قاتل مجھے

ہر اشارے پر ہے پھر بھی گردن تسلیم خم
جانتا ہوں صاف دھوکے دے رہا ہے دل مجھے

جا بھی اے ناصح کہاں کا سود اور کیسا زیاں
عشق نے سمجھا دیا ہے عشق کا حاصل مجھے

میں ازل سے صبح محشر تک فروزاں ہی رہا
حسن سمجھا تھا چراغ کشتۂ محفل مجھے

خون دل رگ رگ میں جم کر رہ گیا اس وہم سے
بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے

کیسا قطرہ کیسا دریا کس کا طوفاں کس کی موج
تو جو چاہے تو ڈبو دے خشکئ ساحل مجھے

پھونک دے اے غیرت سوز محبت پھونک دے
اب سمجھتی ہیں وہ نظریں رحم کے قابل مجھے

توڑ کر بیٹھا ہوں راہ شوق میں پائے طلب
دیکھنا ہے جذبۂ بے تابئ منزل مجھے

اے ہجوم ناامیدی شاد باش و زندہ باش
تو نے سب سے کر دیا بیگانہ و غافل مجھے

درد محرومی سہی احساس ناکامی سہی
اس نے سمجھا تو بہر صورت کسی قابل مجھے

یہ بھی کیا منظر ہے بڑھتے ہیں نہ رکتے ہیں قدم
تک رہا ہوں دور سے منزل کو میں منزل مجھے