EN हिंदी
فکر بیش و کم نہیں ان کی رضا کے سامنے | شیح شیری
fikr-e-besh-o-kam nahin unki raza ke samne

غزل

فکر بیش و کم نہیں ان کی رضا کے سامنے

عروج زیدی بدایونی

;

فکر بیش و کم نہیں ان کی رضا کے سامنے
یہ مجھے تسلیم ہے ارض و سما کے سامنے

جو طلب نا آشنا ہو ماسوا کے سامنے
ہاتھ پھیلاتی ہے دنیا اس گدا کے سامنے

یہ کمال جذب دل میری نظر سے دور تھا
آپ خود آ جائیں گے پردہ اٹھا کے سامنے

سوچنا پڑتا ہے کیوں بے بس ہوں کیوں مجبور ہوں
میں سر آغاز و فکر انتہا کے سامنے

وہ تو کہئے میرا دل آماج گاہ شوق ہے
ورنہ کون آتا ہے تیرے بے خطا کے سامنے

کیا بتاؤں میری غرقابی میں کس کا ہاتھ تھا
ناخدا کو پیش ہونا ہے خدا کے سامنے

ٹوٹ جائے گا طلسم راستی و رہبری
میں اگر آئینہ رکھ دوں رہنما کے سامنے

اے ضمیر زندہ میرے ہر قدم پر احتساب
نامۂ اعمال جائے گا خدا کے سامنے

آندھیاں ان کو بجھا دیں آندھیوں کی کیا مجال
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں ہوا کے سامنے

شدت احساس توبہ کا وہ عالم ہے عروجؔ
جام میرے سامنے ہے میں خدا کے سامنے