EN हिंदी
فضا میں رنگ سے بکھرے ہیں چاندنی ہوئی ہے | شیح شیری
faza mein rang se bikhre hain chandni hui hai

غزل

فضا میں رنگ سے بکھرے ہیں چاندنی ہوئی ہے

انجیل صحیفہ

;

فضا میں رنگ سے بکھرے ہیں چاندنی ہوئی ہے
کسی ستارے کی تتلی سے دوستی ہوئی ہے

مری تمام ریاضت کا ایک حاصل ہے
وہی دعا جو تیرے نام سے جڑی ہوئی ہے

میں حادثے سے نکل آئی ہوں مگر دیکھو
زمین اب بھی مرے جسم پر پڑی ہوئی ہے

ابھی تو تو نے مرا ہاتھ بھی نہیں تھاما
یہ کس خبر سے زمانے میں سنسنی ہوئی ہے

اداسی جونک ہے یہ خون چوس لیتی ہے
یہ بات میں نے کہیں اور بھی سنی ہوئی ہے

میں تیرے لمس کے جادو سے خوب واقف ہوں
وہ شاخ ہوں جو ترے ہاتھ پر ہری ہوئی ہے

جو آنکھیں سینک رہے ہیں انہیں خبر ہی نہیں
یہاں پہ خواب جلے ہیں تو روشنی ہوئی ہے

میں لال رنگ لگاتی تھی نیلے خوابوں کو
اسی لئے تو یہ تعبیر کاسنی ہوئی ہے

وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہے کیا معلوم
خدا سے میری ملاقات سرسری ہوئی ہے

میں پچھلے سال کی تصویر بھیج دیتی تجھے
مگر یہ ایک طرف سے ذرا جلی ہوئی ہے

مزا تو جب ہے کہ انجیلؔ ہی لگے سب کو
نزول عشق پہ جتنی بھی شاعری ہوئی ہے