فضا کہ پھر آسمان بھر تھی
خوشی سفر کی اڑان بھر تھی
وہ کیا بدن بھر خفا تھا مجھ سے
کہ آنکھ بھی چپ گمان بھر تھی
افق کہ پھر ہو گیا منور
لکیر سی اک کہ دھیان بھر تھی
وہ موج کیا ٹوٹ کر گری ہے
تو کیا یہ بس امتحان بھر تھی
وہ اک فسانہ زبان بھر تھا
یہ اک سماعت کہ کان بھر تھی
سبب کہ اب تک وہ پوچھتا ہے
مری اداسی کہ آن بھر تھی
کھلا سمندر کہ چاند بھر تھا
ہوا کہ شب بادبان بھر تھی
ہمیں نے مسمار کر دکھائی
وہ اک رکاوٹ چٹان بھر تھی
شفق بنی آسماں میں جا کر
جو خوں کی بوند اک نشان بھر تھی
نہ لوٹ پایا وہ جانتا تھا
کہ واپسی درمیان بھر تھی
کسی غزل میں نہ آئی بانیؔ
وہ اک اذیت کہ جان بھر تھی
غزل
فضا کہ پھر آسمان بھر تھی
راجیندر منچندا بانی