فضا ہوتی غبار آلودہ سورج ڈوبتا ہوتا
یہ نظارہ بھی دل کش تھا اگر میں تھک گیا ہوتا
ندامت ساعتیں آئیں تو یہ احساس بھی جاگا
کہ اپنی ذات کے اندر بھی تھوڑا سا خلا ہوتا
گزشتہ روز و شب سے آج بھی اک ربط سا کچھ ہے
وگرنہ شہر بھر میں مارا مارا پھر رہا ہوتا
عجب سی نرم آنکھیں گندمی آواز خوشبوئیں
یہ جس کا عکس ہیں اس شخص کا کچھ تو پتہ ہوتا
مسائل جیسے اب درپیش ہیں شاید نہیں ہوتے
اگر کار جنوں میں نے سلیقے سے کیا ہوتا

غزل
فضا ہوتی غبار آلودہ سورج ڈوبتا ہوتا
شہرام سرمدی