فضائے تیرہ شبی کا حساب کرنا ہے
چراغ شام تجھے ماہتاب کرنا ہے
مری سرشت میں داخل وفا کی پابندی
ترا شعار مسلسل عتاب کرنا ہے
ہمارے شانوں پہ ہے بوجھ زندگی کا مگر
ہمیں کو فکر عذاب و ثواب کرنا ہے
زمیں پہ ظلم کی کھیتی بھی سوکھ جائے گی
بس ایک دن اسے حکم عذاب کرنا ہے
لہو کا قطرۂ آخر بھی دے کے اے ناظرؔ
تمام صحن چمن کو گلاب کرنا ہے
غزل
فضائے تیرہ شبی کا حساب کرنا ہے
ناظر صدیقی