فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے
ہاتھ جو قیمت لگی ظل الٰہی لے گئے
جرم میرا صرف اتنا تھا کہ میں مجرم نہ تھا
قید تک مجھ کو ثبوت بے گناہی لے گئے
اب وہی دنیا میں ٹھہرے امن عالم کے امیں
جو اماں کی جا تک اسباب تباہی لے گئے
شکوۂ جلوہ نمائی صرف ان کے لب پہ ہے
جو تری محفل میں اپنی کم نگاہی لے گئے
تم حرم سے لے گئے شب کی سیاہی اور ہم
میکدے سے بھی ضیائے صبح گاہی لے گئے
میں ادھر اخلاقؔ کی تقسیم میں مصروف تھا
لوگ ادھر میری ادائے کج کلاہی لے گئے
غزل
فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے
اخلاق بندوی