EN हिंदी
فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے | شیح شیری
faujiyon ke sar to dushman ke sipahi le gae

غزل

فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے

اخلاق بندوی

;

فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے
ہاتھ جو قیمت لگی ظل الٰہی لے گئے

جرم میرا صرف اتنا تھا کہ میں مجرم نہ تھا
قید تک مجھ کو ثبوت بے گناہی لے گئے

اب وہی دنیا میں ٹھہرے امن عالم کے امیں
جو اماں کی جا تک اسباب تباہی لے گئے

شکوۂ جلوہ نمائی صرف ان کے لب پہ ہے
جو تری محفل میں اپنی کم نگاہی لے گئے

تم حرم سے لے گئے شب کی سیاہی اور ہم
میکدے سے بھی ضیائے صبح گاہی لے گئے

میں ادھر اخلاقؔ کی تقسیم میں مصروف تھا
لوگ ادھر میری ادائے کج کلاہی لے گئے