فوج مژگاں کا کچھ ارادہ ہے
زلف پیچاں نے لام باندھا ہے
لب رنگیں کو کس نے چوسا ہے
دیکھ لو یہ عقیق جھوٹا ہے
کون آیا چھڑی سواری سے
نے سواری کا کس کی شہرا ہے
دانت کھٹے ہوئے اناروں کے
ان کا سیب ذقن یہ میٹھا ہے
بوسۂ لب دیا جو بگڑے غیر
پھوٹ میں تم نے قند ڈالا ہے
کاٹتے ہو ہمارے نام کے حرف
خوب شوشہ ہے زور فقرا ہے
وصف قد کے دو چند ہیں مضموں
کوئی مصرع نہیں ہے دہرہ ہے
دانت کنگھی کا ہے مگر مجھ پر
مار گیسو جو کاٹے کھاتا ہے
خوب ہے وصل عاشق و معشوق
یہ بھی جوڑی کا ایک نسخہ ہے
زخم دل پر نمک چھڑک واؤ
ذائقہ میرے منہ کا پھیکا ہے
غیر کے گھر بجا رہے ہو ستار
تم نے در پردہ ٹھاٹ بدلا ہے
کوئی تازہ کنواں جھکائیں گے
ان دنوں اختلاط گہرا ہے
چٹکی انگیا میں تم نہ ٹکواؤ
گورے سینہ میں نیل پڑتا ہے
بوسہ ہونٹوں کا مل گیا کس کو
دل میں کچھ آج درد میٹھا ہے
چین سے ہیں فقیر بعد فنا
قبر کے بھی سرہانے تکیہ ہے
اے منیرؔ آپ کیوں ہیں آزردہ
یہ تو کہئے مزاج کیسا ہے
غزل
فوج مژگاں کا کچھ ارادہ ہے
منیرؔ شکوہ آبادی