فصل خزاں میں شاخ سے پتا نکال دے
سوکھے شجر سے کھینچ کے سایہ نکال دے
مجھ کو اماں ہو قریۂ وہم و گمان میں
دے کر یقین دل سے تو خدشہ نکال دے
چاہے شرر سے پھونک دے سارے جہان کو
چاہے جسے وہ آگ سے زندہ نکال دے
رہبر نہیں ہے اس سا کوئی دو جہان میں
بحر رواں کو کاٹ کر رستہ نکال دے
بے جان پتھروں سے کرے زندگی کشید
دیوار خشت و سنگ سے پودا نکال دے

غزل
فصل خزاں میں شاخ سے پتا نکال دے
سلیم فگار