فصل گل ساتھ لیے باغ میں کیا آتی ہے
بلبل نغمہ سرا رو رو بقضا آتی ہے
دل دھڑکتا ہے یہ کہتے ہوئے اس محفل میں
یاں کسی کو خفقاں کی بھی دوا آتی ہے
آج وہ شوخ ہے اور کثرت آرائش ہے
دیکھ کس واسطے پسنے کو حنا آتی ہے
کیا کھلے باغ میں وہ چشم حجاب آلودہ
آنکھ اٹھاتے ہوئے نرگس کو حیا آتی ہے
جاں کنی حسن پرستوں کو گراں کیا گزرے
بھیس میں حور بہشتی کے قضا آتی ہے
اس لیے رشک چمن باغ میں گل ہنستے ہیں
کہ اڑاتی تری رفتار صبا آتی ہے
مرض عشق سے بیمارؔ جو گھبراتا ہے
یار کہتا ہے مجھے خوب دوا آتی ہے
غزل
فصل گل ساتھ لیے باغ میں کیا آتی ہے
شیخ علی بخش بیمار