فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
باغباں غیب کا اس کا وہیں پھر سر توڑے
دست صیاد میں کہتی تھی یہ کل بلبل زار
کیا رہائی کا مزا ہے جو مرے پر توڑے
خاک بھی خون کی جا نکلی نہ یہاں اے پیارے
بے سبب ہائے یہ فضا دون نے نشتر توڑے
وصل کے تشنہ لبوں کو نہ ہو مایوسی کیوں
دور پر ان کے فلک ہائے جو ساغر توڑے
میرے دلبر کو ملا دے جو کوئی مجھ سے سرورؔ
ابھی دیتا ہوں زر سرخ کے ستر توڑے
غزل
فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
رجب علی بیگ سرور