EN हिंदी
فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے | شیح شیری
fasl-e-gul mein jo koi shaKH-e-sanobar toDe

غزل

فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے

رجب علی بیگ سرور

;

فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
باغباں غیب کا اس کا وہیں پھر سر توڑے

دست صیاد میں کہتی تھی یہ کل بلبل زار
کیا رہائی کا مزا ہے جو مرے پر توڑے

خاک بھی خون کی جا نکلی نہ یہاں اے پیارے
بے سبب ہائے یہ فضا دون نے نشتر توڑے

وصل کے تشنہ لبوں کو نہ ہو مایوسی کیوں
دور پر ان کے فلک ہائے جو ساغر توڑے

میرے دلبر کو ملا دے جو کوئی مجھ سے سرورؔ
ابھی دیتا ہوں زر سرخ کے ستر توڑے