فصل غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے
درد کی موجوں میں بھی تیزی ہو جاتی ہے
پانی میں بھی چاند ستارے اگ آتے ہیں
آنکھ سے دل تک وہ زرخیزی ہو جاتی ہے
اندر کے جنگل سے آ جاتی ہیں یادیں
اور فضا میں صندل بیزی ہو جاتی ہے
خوشیاں غم میں بالکل گھل مل سی جاتی ہیں
اور نشاط میں غم انگیزی ہو جاتی ہے
شیریں سے لہجے میں بھر جاتی ہے تلخی
حیلہ جوئی جب پرویزی ہو جاتی ہے
بے حد پاور جس کو بھی مل جائے اس کی
طرز یزیدی یا چنگیزی ہو جاتی ہے
غزلوں میں ویسے تو سچ کہتا ہوں لیکن
کچھ نہ کچھ تو رنگ آمیزی ہو جاتی ہے
حسن تمہارا تو ہے سچ اور خیر سراپا
ہم سے ہی بس شر انگیزی ہو جاتی ہے
ظاہر کا پردہ ہٹنے والی منزل پر
سالک سے بھی بد پرہیزی ہو جاتی ہے
رومیؔ کو حیدرؔ جب بھی پڑھنے لگتا ہوں
باطن کی دنیا تبریزی ہو جاتی ہے
غزل
فصل غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے
حیدر قریشی