فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
بلبل کے ساتھ نعرۂ مستانہ چاہئے
عشاق شمع حسن کو کیا کیا نہ چاہئے
پرواز رنگ کو پر پروانہ چاہئے
پیری میں رات دن ہمیں پیمانہ چاہئے
رعشہ کے بدلے لغزش مستانہ چاہئے
وحشت میں بات عقل کی سننا نہ چاہئے
کانوں میں پنبۂ کف دیوانہ چاہئے
کنگھی بناؤں چوب عصائے کلیم کی
تسخیر مار گیسوئے جانانہ چاہئے
دریائے وحدت و چمن دہر سے ہمیں
در یگانہ سبزۂ بیگانہ چاہئے
آب و غذائے عاشق دنداں محال ہے
روز آب و دانۂ در یکدانہ چاہئے
میں سائل کمال جنوں ہوں مرے لئے
کجکول کاسۂ سر دیوانہ چاہئے
اسرار حق ہیں دل میں مگر دل ہے بے خبر
اس گنج کے لئے یہی ویرانہ چاہئے
سیر بہشت چاہتے ہیں نشہ میں مدام
مستوں کو چشم حور کا پیمانہ چاہئے
گو بے نقاب رہتے ہو پردے میں ہے حجاب
در پردہ ہم سے آپ کو چھپنا نہ چاہئے
عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو
پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے
اے پیر مے فروش در توبہ کی طرح
وا روز حشر تک در مے خانہ چاہئے
تا مرگ آشنا نہ ہوا ایک سبزہ رنگ
تربت پر اپنی سبزۂ بیگانہ چاہئے
دشمن ہے وہ تو تم بھی نہ ہو دوست اے منیرؔ
اپنا برا نہ چاہئے اچھا نہ چاہئے
غزل
فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
منیرؔ شکوہ آبادی