فصل ایسی ہے الفت کے دامن تلے
ہم جلیں تم جلو ساری دنیا جلے
تپ کے کندن کی مانند نکھرا جنوں
جس قدر غم بڑھا بڑھ گئے حوصلے
دل میں پھیلی ہے یوں روشنی یاد کی
جیسے ویران مندر میں دیپک جلے
جشن سے میری بربادیوں کا چلو
دوستو آؤ شیشے میں شعلہ ڈھلے
ہر نفس جیسے جینے کی تعزیر ہے
کتنے دشوار ہیں عمر کے مرحلے
ہم الجھتے رہے فلسفی کی طرح
اور بڑھتے گئے وقت کے مسئلے
موڑ سکتے ہیں دنیا کا رخ آج ہی
آپ سے کچھ حسیں ہم سے کچھ منچلے
وقت مجھ سے مرا حافظہ چھین لے
آگ میں کوئی یادوں کی کب تک چلے
خندۂ گل سے ساحرؔ نہ بہلیں گے ہم
تازہ دم میں جنوں کے ابھی ولولے

غزل
فصل ایسی ہے الفت کے دامن تلے
ساحر لکھنوی