فصیل شب پے تاروں نے لکھا کیا
میں محو خواب تھا تم نے پڑھا کیا
فضا میں گھل گئے ہیں رنگ کتنے
ذرا سی دھوپ سے بادل کھلا کیا
ہواؤں کو الجھنے سے ہے مطلب
مری زنجیر کیا تیری ردا کیا
چراغ اک دوسرے سے پوچھتے ہیں
سبھی ہو جائیں گے رزق ہوا کیا
بدن میں قید ہو کر رہ گئی ہے
ہماری روح کا تھا مدعا کیا
جسے بھی دیکھیے وہ نیند میں ہے
ہمارے شہر کو آخر ہوا کیا
غزل
فصیل شب پے تاروں نے لکھا کیا
وکاس شرما راز