فصیل ریگ پر اتنا بھروسہ کر لیا تم نے
چھتیں بھی ڈال دیں اور وا دریچہ کر لیا تم نے
تعجب ہے عبادت میں بھی ایسا کر لیا تم نے
نہیں دل کو جھکایا اور سجدہ کر لیا تم نے
کبھی مانا شریعت کی کبھی اس سے رہے عاجز
مگر دعویٰ کہ دل اللہ والا کر لیا تم نے
محبت پیار ہمدردی سبھی کو رکھ دیا گروی
حصول عیش کی خاطر جو چاہا کر لیا تم نے
سمیٹا زندگی بھر کالی گوری جیب کی رونق
ڈھلا جب عمر کا سورج تو توبہ کر لیا تم نے
طہارت کی تمنا ہے نہ دل میں حق پسندی ہے
مگر معصوم چہرہ اور لبادہ کر لیا تم نے
گراں مایہ امانت تھی اسے محفوظ رکھنا تھا
ولیؔ پاکیزہ تہذیبوں کا سودا کر لیا تم نے

غزل
فصیل ریگ پر اتنا بھروسہ کر لیا تم نے
ولی مدنی