فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں
یہی خیال ہے جی میں کہ گھر نہ جاؤں میں
بدن کے تپتے جہنم میں خواہشوں کا سفر
اسی سفر کے بھنور میں اتر نہ جاؤں میں
ہوئی تمام مسافت اس ایک خواہش میں
کہ اب وہ لاکھ بلائے مگر نہ جاؤں میں
بکھیر دیتا ہے کچھ اور جب بھی ملتا ہے
اسے تو وہم یہی ہے سنور نہ جاؤں میں
وہ جس کی چاہ میں دشوار منزلیں طے کیں
خموش اس کے نگر سے گزر نہ جاؤں میں
نویدؔ اس سے مرا ربط لفظ و معنی کا
یہ رابطہ نہ رہے گر تو مر نہ جاؤں میں
غزل
فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں
زاہد نوید