EN हिंदी
فساد قلب و نظر حاصل تماشا دیکھ | شیح شیری
fasad-e-qalb-o-nazar hasil-e-tamasha dekh

غزل

فساد قلب و نظر حاصل تماشا دیکھ

سید امین اشرف

;

فساد قلب و نظر حاصل تماشا دیکھ
سوار مرکب دنیا غبار دنیا دیکھ

تمام کار اجل ہے نمود پست و فراز
نوشتۂ سر کہسار و باغ و دریا دیکھ

ہر امتحاں ہے نئے سانحے کا پس منظر
دکھائی کچھ نہیں دیتا تو راہ فردا دیکھ

وہ اپنی تیغ سے خود ہی لہولہان ہوا
مرے بدن پہ تو ہر زخم ہے اسی کا دیکھ

عجب نہیں کہ ہو دیوار نقطۂ موہوم
مکان ہو کہ مکیں دو دلوں کا ملنا دیکھ

جو ہو سکے نگہ عیب جو اتار کے پھینک
کمال حیرت و فطرت جمال زیبا دیکھ

کبھی کبھی نگہ سرد ہو خمار آلود
کبھی کبھی دل بے مہر کو تڑپتا دیکھ

کبھی کبھی سہی اڑ جائے ہوش کا دامن
کبھی کبھی تو یہ کیفیت نظارہ دیکھ

خیال دل سے نظر ہے خیال سے نازک
ذرا سنبھال کے گلدستۂ تمنا دیکھ

یہ واقعہ ہے کہ خوشبوئے مشک آتی ہے
بلائے جاں سر بازار مجھ کو رسوا دیکھ