EN हिंदी
فرزانوں کی اس بستی میں ایک عجب سودائی ہے | شیح شیری
farzanon ki is basti mein ek ajab saudai hai

غزل

فرزانوں کی اس بستی میں ایک عجب سودائی ہے

اطہر نفیس

;

فرزانوں کی اس بستی میں ایک عجب سودائی ہے
کس کے لیے یہ حال ہے اس کا کون ایسا ہرجائی ہے

کس کے لیے پھرتا ہے اکیلا شہر کے ہنگاموں سے دور
کون ہے جس کی خاطر اس کو تنہائی راس آئی ہے

کس کے لب و رخسار کی باتیں ڈھل جاتی ہیں غزلوں میں
کس کے خم کاکل کی کہانی وجہ سخن آرائی ہے

کون ہے جس کی محرومی کے داغ ہیں اس کے سینے میں
کون ہے جس کے خوابوں کی اک دنیا میں نے سجائی ہے

کیوں اس کی آشفتہ سری کا چرچا ہے ہم لوگوں میں
کیوں اتنی پر کیف و سوز اس کی شب تنہائی ہے

اطہرؔ آؤ ہم بھی اس کے دل کی باتیں سن آئیں
کہتے ہیں دیوانہ ہے وہ وحشی ہے سودائی ہے