فرزانوں کی اس بستی میں ایک عجب سودائی ہے
کس کے لیے یہ حال ہے اس کا کون ایسا ہرجائی ہے
کس کے لیے پھرتا ہے اکیلا شہر کے ہنگاموں سے دور
کون ہے جس کی خاطر اس کو تنہائی راس آئی ہے
کس کے لب و رخسار کی باتیں ڈھل جاتی ہیں غزلوں میں
کس کے خم کاکل کی کہانی وجہ سخن آرائی ہے
کون ہے جس کی محرومی کے داغ ہیں اس کے سینے میں
کون ہے جس کے خوابوں کی اک دنیا میں نے سجائی ہے
کیوں اس کی آشفتہ سری کا چرچا ہے ہم لوگوں میں
کیوں اتنی پر کیف و سوز اس کی شب تنہائی ہے
اطہرؔ آؤ ہم بھی اس کے دل کی باتیں سن آئیں
کہتے ہیں دیوانہ ہے وہ وحشی ہے سودائی ہے
غزل
فرزانوں کی اس بستی میں ایک عجب سودائی ہے
اطہر نفیس