فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے
ایک پر پیچ غنا ایک حریری نغمہ
ہائے وہ حسن کہ جنگل کی صدا ہو جیسے
عشق یوں وادئ ہجراں میں ہوا محو خرام
خارزاروں میں کوئی آبلہ پا ہو جیسے
عارضوں پر وہ ترے تابش پیمان وفا
چاندنی رات کے چہرے پہ حیا ہو جیسے
اس طرح داغ دمکتے ہیں دل وحشی پر
قیس کے جسم پہ پھولوں کی عبا ہو جیسے
کتنا دل کش ہے تری یاد کا پالا ہوا اشک
سینۂ خاک پہ مہتاب گرا ہو جیسے
رت جگے وہ بھی نشاط غم محبوب کے ساتھ
حسن والوں نے بڑا کام کیا ہو جیسے
ہجر کی رات عجب رنگ ہے پیمانے کا
دست مے خوار میں بجھتا سا دیا ہو جیسے
خاک دل پر ترے سیال تصور کا خرام
ریگ صحرا پہ رواں باد صبا ہو جیسے
آج اس شوخ کی چتون کا یہ عالم ہے ظہیرؔ
حسن اپنی ہی اداؤں سے خفا ہو جیسے
غزل
فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
ظہیر کاشمیری