فرق کوئی نہیں مگر ہے بھی!
تلخ دونوں ہیں زہر بھی مے بھی
شور اتنا ہے جس کے ہونے کا
کون جانے کہ وہ کہیں ہے بھی
سینۂ آدمی کی بات ہے اور
یوں تو چھلنی ہے سینۂ نے بھی
یوں بھی چپ ہوں ترے بدلنے پر
پہلے جیسی نہیں کوئی شے بھی
میرے بارے میں سوچنے والے
میرے بارے میں کچھ کریں طے بھی
دے رہے ہیں وہی مجھے دشنام
بولنی ہے جنہیں مری جے بھی
سر بدلنے کا تھا محل راشدؔ
تم نے بدلی نہیں مگر لے بھی

غزل
فرق کوئی نہیں مگر ہے بھی!
راشد مفتی