فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
ترجمان غم دل کون ہے اشکوں کے سوا
اک یہی تار شکستہ تو مرے ساز میں ہے
مرغ آزاد اسیروں کو حقارت سے نہ دیکھ
ان کی طاقت بھی ترے بازوئے پرواز میں ہے
ایک لے دے کے تمنا ہے سو وہ بھی ناکام
دل میں کیا ہے جو تری جلوہ گہہ ناز میں ہے
دل کو دیوانہ سمجھ کر نہ بہت چھیڑو تم
کہیں کچھ کہہ نہ اٹھے یہ حرم راز میں ہے
غزل
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
آنند نرائن ملا