فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں
ہم پھر رہے ہیں مہر بلب اپنے شہر میں
اب کیا دیار غیر میں ڈھونڈیں ہم آشنا
اپنے تو غیر ہو گئے سب اپنے شہر میں
اب امتیاز دشمنی و دوستی کسے
حالات ہو گئے ہیں عجب اپنے شہر میں
جو پھول آیا سبز قدم ہو کے رہ گیا
کب فصل گل ہے فصل طرب اپنے شہر میں
جو راندۂ زمانہ تھے اب شہریار ہیں
کس کو خیال نام و نسب اپنے شہر میں
اک آپ ہیں کہ سارا زمانہ ہے آپ کا
اک ہم کہ اجنبی ہوئے اب اپنے شہر میں
خاطرؔ اب اہل دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں
غزل
فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں
خاطر غزنوی