فریب ذوق کو ہر رنگ میں عیاں دیکھا
جہاں جہاں تجھے ڈھونڈھا وہاں وہاں دیکھا
وہی ہے دشت جنوں اور وہی ہے تنہائی
ترے فریب کو اے گرد کارواں دیکھا
ہے برق کو بھی کوئی لاگ نا مرادوں سے
گری تڑپ کے جہاں اس نے آشیاں دیکھا
جنوں نے حافظہ برباد کر دیا اپنا
کچھ اب تو یاد نہیں ہے کسے کہاں دیکھا
عجب یہ دل ہے جسے باوجود تنہائی
گھرا ہوا ترے جلووں کے درمیاں دیکھا
وہیں وہیں ترے جلووں نے آگ بھڑکائی
جہاں جہاں کوئی بے نام و بے نشاں دیکھا
طلسم سوز محبت کی گرمیاں توبہ
کہ ہم نے اشک کے پانی میں بھی دھواں دیکھا
گلی میں ان کی قدم رکھ کے سخت حیراں ہوں
یہاں زمیں کو بھی ہم رنگ آسماں دیکھا
لگا دی جان کی بازی غم محبت نے
جب ان کے حسن کا سودا بہت گراں دیکھا
ہزار بار سنے ہم نے عشق کے نالے
مگر کسی نے جو دیکھا تو بے زباں دیکھا
غزل
فریب ذوق کو ہر رنگ میں عیاں دیکھا
شوکت تھانوی