فریب نکہت و گلزار سے بچاؤ مجھے
کرم کرو کسی صحرا میں چھوڑ آؤ مجھے
وہ جنس ہوں میں جسے بک کے مدتیں گزریں
جو ہو سکے تو کہیں سے خرید لاؤ مجھے
مچل رہی ہے نظر چھو کے دیکھیے اس کو
سمٹ رہا ہے بدن ہاتھ مت لگاؤ مجھے
کسی طرح ان اندھیروں کی عمر تو کم ہو
جلانے والو ذرا دیر تک جلاؤ مجھے
کسی پہ اپنے سوا اب نظر نہیں پڑتی
مری نگاہ سے اے دوستو بچاؤ مجھے
یہ کس کی لاش لیے جاتے ہو اٹھائے ہوئے
کہیں وہ میں تو نہیں ہوں ذرا دکھاؤ مجھے
بکھر چکا ہوں علیؔ میں غزل کے شعروں میں
بساط عارض و لب سے سمیٹ لاؤ مجھے
غزل
فریب نکہت و گلزار سے بچاؤ مجھے
علی احمد جلیلی