فریب نو کے بھنور میں اتارتا ہے مجھے
یہ کون پچھلے پہر پھر پکارتا ہے مجھے
شکستہ حال ہوں رنج و الم سے چور ہوں میں
نگاہ لطف سے اب کیا سنوارتا ہے مجھے
نظر یہ اپنی چڑھاتا ہوں جس قدر اس کو
اسی قدر وہ نظر سے اتارتا ہے مجھے
میں کب کا ڈوب چکا ہوں اسے خبر ہی نہیں
جو ساحلوں سے ابھی تک پکارتا ہے مجھے
اسی کی یاد ہے میری حیات کا حاصل
جو بے نیاز تغافل سے مارتا ہے مجھے
میں صلح و امن کا شیدائی ہوں مرے رہبر
فساد د فتنہ پہ تو کیوں ابھارتا ہے مجھے
ملا ہے مدتوں کے بعد کچھ غرض ہوگی
کس انکسار سے دیکھو نہارتا ہے مجھے
اسے میں خاص کرم میں شمار کرتا ہوں
جو تو مراحل غم سے گزارتا ہے مجھے
وہ چاہتا ہے گہر یاب ہو کے ابھروں میں
سمندروں کی جو تہ تک اتارتا ہے مجھے
پنم کی رات کا یہ فیض نور افشاں چاندؔ
کسی حسین خطا پر ابھارتا ہے مجھے
غزل
فریب نو کے بھنور میں اتارتا ہے مجھے
مہندر پرتاپ چاند