فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
نقاب اٹھاؤ کہ کچھ دن ذرا بہار رہے
خراب شوق رہے وقف انتظار رہے
اب اور کیا ترے وعدوں کا اعتبار رہے
میں راز عشق کو رسوا کروں معاذ اللہ
یہ بات اور ہے دل پر نہ اختیار رہے
چمن میں رکھ تو رہا ہوں بنا نشیمن کی
خدا کرے کہ زمانہ بھی سازگار رہے
جنوں کا رخ ہے حریم حیات کی جانب
الٰہی پردۂ اوہام اعتبار رہے
غزل
فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
اختر علی اختر