EN हिंदी
فریب حسن ہے دنیا مری نظر کے لئے | شیح شیری
fareb-e-husn hai duniya meri nazar ke liye

غزل

فریب حسن ہے دنیا مری نظر کے لئے

بسمل سعیدی

;

فریب حسن ہے دنیا مری نظر کے لئے
نگاہ عشق نہیں حسن رہ گزر کے لئے

قفس میں رہ کے نہ روتے اگر یہ جانتے ہم
چمن میں رہ کے بھی رونا ہے بال و پر کے لئے

کسی جبیں میں کسی در کے واسطے بھی نہیں
مری جبیں میں جو سجدے ہیں تیرے در کے لئے

مری نظر کو جو ترسا رہی تھی اپنے لیے
تری رہی ہے وہ صورت مری نظر کے لئے

نہ چارہ گر کے لئے مجھ میں کوئی وصف حیات
نہ وجہ ماتم مرگ آہ نوحہ گر کے لئے

تمام عمر بھی گزرے جو بن کے ظلمت شب
کریں نہ منت خورشید ہم سحر کے لئے

خوشا وہ دور محبت کہ وقف ہو جائے
جبین حسن محبت کے سنگ در کے لئے

زمانہ آنکھ سے مجھ کو گرا کے بھول گیا
اک اشک تھا میں زمانے کی چشم تر کے لئے

قبولیت کو اگر ہیں عبادتیں درکار
گناہ چاہئیں رحمت کو در گزر کے لئے

کیا خیال نہ اپنا بھی کچھ مری خاطر
دعائیں کی ہیں ستاروں نے بھی سحر کے لئے

چمن نے پھول دیے اور شفق نے رنگ دیا
شعاعیں چاند نے دیں تیری رہ گزر کے لئے

وہ زندگی ہے محبت کہ جس کے زیر اثر
نفس نفس میں ہو اک موت عمر بھر کے لئے

بلائے عشق سے بسمل نہ رکھ امید نجات
دعائے صبح نہ کر شام بے سحر کے لئے