EN हिंदी
فریب ہجر میں لمحے سبھی وصال کے ہیں | شیح شیری
fareb-e-hijr mein lamhe sabhi visal ke hain

غزل

فریب ہجر میں لمحے سبھی وصال کے ہیں

مستحسن خیال

;

فریب ہجر میں لمحے سبھی وصال کے ہیں
گئے دنوں کی محبت یہ دن ملال کے ہیں

گئی رتوں کے فسانے ابھی نہیں بھولے
یہ جتنے خواب ہیں آنکھوں میں گزرے سال کے ہیں

یہ اپنا ظرف ہے خاموش ہو گئے ہم لوگ
بہت جواب اگرچہ ترے سوال کے ہیں

اگرچہ وجہ اذیت ہیں اب تو یادیں بھی
مگر یہ سارے فسانے اسی جمال کے ہیں

یہ دھوپ چھاؤں کے منظر خیالؔ دیکھ ذرا
یہ سارے عکس اسی ذات با کمال کے ہیں