EN हिंदी
فرد کو عصر کی رفتار لیے پھرتی ہے | شیح شیری
fard ko asr ki raftar liye phirti hai

غزل

فرد کو عصر کی رفتار لیے پھرتی ہے

سید حامد

;

فرد کو عصر کی رفتار لیے پھرتی ہے
جنس کو گرمئ بازار لیے پھرتی ہے

پر پرواز سے انکار نہیں ہے لیکن
کیجیئے غور تو منقار لیے پھرتی ہے

اس کی قسمت میں رسائی نہ سہی عاشق کو
حسرت لذت اظہار لیے پھرتی ہے

طالب علم کو ادراک فضیلت کے بجائے
خواہش طرہ و دستار لیے پھرتی ہے

دونوں ٹانگوں کا اشارہ ہے کہ گردش ہم کو
ہر طرف صورت پرکار لیے پھرتی ہے

ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ملتا ہے سکوں
گردش گنبد دوار لیے پھرتی ہے

ہتھکڑی جیسے لگاتے ہیں اسیروں کو وہ زلف
کر کے حلقے میں گرفتار لیے پھرتی ہے

طوف میں فرط طرب سے ہے زمیں چرخ زناں
سایۂ گیسو و رخسار لیے پھرتی ہے

جسم کے بوجھ کو آغاز سے انجام تلک
گرچہ ہے روح گراں بار لیے پھرتی ہے

اس کو ٹھہرائے ہوئے قصر بقا کی بنیاد
زندگی سانس کا اک تار لیے پھرتی ہے