فراہم جس قدر عشرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
سکون روح سے محروم انساں ہوتے جاتے ہیں
کبھی طرز تغافل تھے یہی انداز محبوبی
جو اب صرف نوازش ہائے پنہاں ہوتے جاتے ہیں
شباب و حسن روز افزوں کا ان کے کچھ یہ عالم ہے
کہ ہم شرمندۂ شوق فراواں ہوتے جاتے ہیں
ابھی جامے مئے رنگیں لب لعلیں تک آیا ہے
مگر آنکھوں میں میخانے سے غلطاں ہوتے جاتے ہیں
فضائے خلد پر جیسے گھٹائیں چھائی جاتی ہوں
رخ گل رنگ پر گیسو پریشاں ہوتے جاتے ہیں
نفس کی آمد و شد کا یہ عالم ہے جدائی میں
کہ نشتر جیسے پیوست رگ جاں ہوتے جاتے ہیں
تعالیٰ اللہ فیض باغباں بسملؔ تعالیٰ اللہ
خس و خاشاک گلشن گل بہ داماں ہوتے جاتے ہیں
غزل
فراہم جس قدر عشرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
بسمل سعیدی