فقیری میں یہ تھوڑی سی تن آسانی بھی کرتے ہیں
کہ ہم دست کرم دنیا پہ ارزانی بھی کرتے ہیں
در روحانیاں کی چاکری بھی کام ہے اپنا
بتوں کی مملکت میں کار سلطانی بھی کرتے ہیں
جنوں والوں کی یہ شائستگی طرفہ تماشا ہے
رفو بھی چاہتے ہیں چاک دامانی بھی کرتے ہیں
مجھے کچھ شوق نظارہ بھی ہے پھولوں کے چہروں کا
مگر کچھ پھول چہرے میری نگرانی بھی کرتے ہیں
جو سچ پوچھو تو ضبط آرزو سے کچھ نہیں ہوتا
پرندے میرے سینے میں پر افشانی بھی کرتے ہیں
ہمارے دل کو اک آزار ہے ایسا نہیں لگتا
کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں
بہت نوحہ گری کرتے ہیں دل کے ٹوٹ جانے کی
کبھی آپ اپنی چیزوں کی نگہبانی بھی کرتے ہیں
غزل
فقیری میں یہ تھوڑی سی تن آسانی بھی کرتے ہیں
عرفانؔ صدیقی