EN हिंदी
فقیر کس درجہ شادماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا | شیح شیری
faqir kis darja shadman the huzur ko kuchh to yaad hoga

غزل

فقیر کس درجہ شادماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

عبد الحمید عدم

;

فقیر کس درجہ شادماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا
حضور کس درجہ مہرباں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

وہ مے کدہ تھا صنم کدہ تھا کہ باب جنت کھلے ہوئے تھے
تمام شب آپ ہم کہاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

وہاں بہاروں کے زمزمے تھے وہاں نگاروں کے جمگٹھے تھے
وہاں ستاروں کے کارواں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

پہن کے پھولوں کے تاج سر پر حسین و شاداب مسندوں پر
سبو بکف کون حکمراں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

مراحل راحت و اماں تھے مسائل ماہ و کہکشاں تھے
مشاغل حرف و داستاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

اگرچہ شوق و طلب تھے بے ساختہ ہم آغوشیوں پہ مائل
کئی تکلف بھی درمیاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

لطیف شامیں طبیعتوں کے ضمیر سے خوب آشنا تھیں
حسیں سویرے مزاج داں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

نظر کی حد تک محیط تھا سلسلہ مہکتے ہوئے گلوں کا
گلوں میں پریوں کے گھر نہاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

عجیب سانچے کی کشتیاں بہہ رہی تھیں لہروں کے زیر و بم پر
عجیب صورت کے بادباں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

الوہیت آپ اس حسیں اتفاق پر مسکرا رہی تھی
صنم خداؤں کے میہماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

جو واقعے تھے وہ گونجتے زمزموں کے مانند موجزن تھے
جو خواب تھے سرو بوستاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

کہیں کہیں سلسبیل و کوثر کی جوت موجود تھی زمیں پر
کہیں کہیں عرش و آسماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا

شب محبت حضور کی کاکلوں کے کھلنے کے سلسلے میں
عدمؔ کے اصرار کیا جواں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہوگا