فقط قیام کا مطلب گزر بسر کوئی ہے
میں رہ رہا ہوں جہاں پر، وہ میرا گھر کوئی ہے
جوان لو پہ نہ جا، نو دمیدہ ضو پہ نہ جا
چراغ وعدہ ہے، جلتا یہ عمر بھر کوئی ہے
وہ پاس بیٹھ بھی جائے تو کیا کہوں اس سے
جو داستان سنانی ہے، مختصر کوئی ہے
کہیں سے شوق تماشا میں آ گیا ہوگا
جو دل کو دیکھنے آیا ہے، چارہ گر کوئی ہے
جو کٹ رہی ہے تری چشم بے نہایت میں
رہ حیات ہے ساری، رہ سفر کوئی ہے

غزل
فقط قیام کا مطلب گزر بسر کوئی ہے
سید کاشف رضا