فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
مرے دکھ تک مرے خوں اور پسینے کی کمائی ہیں
تمہیں کیوں میری محنت کا ثمر اچھا نہیں لگتا
شکستہ سطر چاہے رنگ و بوئے پیرہن ٹھہرے
کسی صورت مجھے عجز ہنر اچھا نہیں لگتا
میسر ہو نہ جب تک بوئے تازہ تر کی ہم راہی
ہوا کی طرح گلیوں سے گزر اچھا نہیں لگتا
رہ تیشہ طلب تیری میں وہ دیوار ہوں جس کو
نہ ہو شوریدگی جس میں وہ سر اچھا نہیں لگتا
گلی میں کھیلتے بچوں کے ہاتھوں کا میں پتھر ہوں
مجھے اس صحن کا خالی شجر اچھا نہیں لگتا
چمکتا ہوں ہر اک مہتاب رو کے روئے روشن میں
میں سورج ہوں مجھے شب کا سفر اچھا نہیں لگتا
جسے دیکھیں وہی پھر دیکھنے کی آرزو ٹھہرے
جسے چاہیں وہی بار دگر اچھا نہیں لگتا
اسی خاطر اسے تابشؔ اچکنا چاہتا ہوں میں
مجھے تالاب کی تہہ میں قمر اچھا نہیں لگتا
غزل
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
عباس تابش