فقط اک شغل بیکاری ہے اب بادہ کشی اپنی
وہ محفل اٹھ گئی قائم تھی جس سے سر خوشی اپنی
خدا یا نا خدا اب جس کو چاہو بخش دو عزت
حقیقت میں تو کشتی اتفاقاً بچ گئی اپنی
بس اب گزریں گے راہ زندگی سے بے نیازانہ
اگر تیرے کرم پر منحصر ہے زندگی اپنی
بہت جی چاہتا ہے یہ فقط نقص بصارت ہو
بڑی سرعت سے دنیا کھو رہی ہے دل کشی اپنی
خموشی پر بھی ہے ان کو گماں عرض تمنا کا
زبان حال سے کچھ کہہ گئی وارفتگی اپنی
اگر تم ہنس دیے احوال دل پر کیا تعجب ہے
کہ میں خود بھی بہ مشکل ضبط کرتا ہوں ہنسی اپنی
ہوئی ہیں بارشیں سنگ ملامت کی بہت لیکن
رہے وضع جنوں قائم ہے شوریدہ سری اپنی
غزل
فقط اک شغل بیکاری ہے اب بادہ کشی اپنی
گوپال متل