فنا کے راستے پھولوں سے بھر گئے شاید
ستارے منزل شب سے گزر گئے شاید
نہ آہ دل میں نہ آنکھوں میں اشک باقی ہیں
حواس رشتۂ غم پار کر گئے شاید
جو نور بھرتے تھے ظلمات شب کے صحرا میں
وہ چاند تارے فلک سے اتر گئے شاید
مہکتے پھول جو یادوں میں مسکراتے تھے
نفس کی تیز ہوا سے بکھر گئے شاید
وفا کی راہ میں جو قافلے رواں تھے کہیں
وہ منزلوں کا پتا ہی بسر گئے شاید
چلو یہاں سے کہیں اور مر رہیں مامونؔ
طیور غم بھی مکاں خالی کر گئے شاید
غزل
فنا کے راستے پھولوں سے بھر گئے شاید
خلیل مامون