EN हिंदी
فن کی اور ذات کی پیکار نے سونے نہ دیا | شیح شیری
fan ki aur zat ki paikar ne sone na diya

غزل

فن کی اور ذات کی پیکار نے سونے نہ دیا

کرار نوری

;

فن کی اور ذات کی پیکار نے سونے نہ دیا
دل میں جاگے ہوئے فن کار نے سونے نہ دیا

ہر طرف تپتی ہوئی دھوپ مرے ساتھ گئی
زیر سایہ کسی دیوار نے سونے نہ دیا

ایک معصوم سی صورت کو کہیں دیکھا تھا
پھر بھی چشمان گنہ گار نے سونے نہ دیا

میرے ہم سایے میں شاید ہے کوئی مجھ جیسا
ہے جو چرچا کسی بیمار نے سونے نہ دیا

کل مرے شہر میں اک ظلم کچھ ایسا بھی ہوا
رات بھر غیرت فنکار نے سونے نہ دیا

جاگتے رہنے کا آرام تو کیا ہم کو بھی
چین سے شدت افکار نے سونے نہ دیا

کل کچھ ایسی ہی سر بزم مری بات گری
کسی پہلو مرے پندار نے سونے نہ دیا

ایک دھڑکا سا لگا تھا کہ سحر دم کیا ہو
سر پہ لٹکی ہوئی تلوار نے سونے نہ دیا