فلک ان سے جو بڑھ کر بدچلن ہوتا تو کیا ہوتا
جواں سے پیش رو پیر کہن ہوتا تو کیا ہوتا
مسلم دیکھ کر یعقوب مردہ سے ہوئے بدتر
جو یوسف کا دریدہ پیرہن ہوتا تو کیا ہوتا
ہمارا کوہ غم کیا سنگ خارا ہے جو کٹ جاتا
اگر مر مر کے زندہ کوہ کن ہوتا تو کیا ہوتا
عطا کی چادر گرد اس نے اپنے مرنے والوں کو
ہوئی خلقت کی یہ صورت کفن ہوتا تو کیا ہوتا
نگہباں جل گئے چار آنکھیں ہوتے دیکھ کر اس سے
کلیم آسا کہیں وہ ہم سخن ہوتا تو کیا ہوتا
بڑا بدعہد ہے اس شہرت ایفائے وعدہ پر
اگر مشہور تو پیماں شکن ہوتا تو کیا ہوتا
مقدر میں تو لکھی ہے گدائی کوئے جاناں کی
اگر افسرؔ شہنشاہ زمن ہوتا تو کیا ہوتا
غزل
فلک ان سے جو بڑھ کر بدچلن ہوتا تو کیا ہوتا
افسر الہ آبادی